ایام نکبہ و ایام نکسہ
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
1948 میں فلسطین کی جنگ کے دوران، قریب 750000 فلسطینیوں کو نکال باہر کیا گیااور سینکڑوں فلسطینی دیہاتوں کو ویران اور تباہ وبرباد کردیا گیا
14 مئی، 1948 کو اسرائیل کی تخلیق کے بعد فلسطینیوں کی اپنی زمین سے جبری انخلاءکی یاد میںفلسطینیوں نے 15 مئی کو چونسٹھ واں یوم النکبہ یا تباہی کا دن منایا۔ ’یوم النکبہ‘ کا دن ایک واقعہ کے طور پر نہیں منایا جاتا ہے بلکہ فلسطینیوں کی نقل مکانی، قبضِ حقوق اور محرومی کے عمل کے طور پر منایا جاتا ہے کہ جب اس کا آغاز ہوا اور انہیں نقصان پہنچانے کیلئے جاری رہا۔
لبنان اسرائیل سرحد پر گزشتہ سال کے یوم النکبہ کے مارچ کو ’ فلسطین کی واپسی کے لیے مارچ‘ کا نام دیا گیا، مظاہرین ان نعروں کیساتھ کہ ”اے فلسطین ہم اپنی روح ، اپنے خون، ہم خود کو تمہارے لئے قربان کردیں گے۔“ اسرائیلی افواج نے براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے سو سے زائد مظاہرین کو زخمی اور چھ کو ہلاک کردیا، جن میں سے دو چھ اور آٹھ سال کے عمر کی بچیاںتھیں؛ کُل بارہ مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ’یوم النکسہ‘ پر، جس کے معنی ’یومِ تنزلّی‘ ہے، جسے 5 جون کو 1967 ءکی چھ روزہ جنگ کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کی یادمیں منایا جاتا ہے، جوکہ جون میں گولان کے قریب منایا گیا، اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں بیس مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
1948 میں فلسطین کی جنگ کے دوران، قریب 750000 فلسطینیوں کو نکال باہر کیا گیااور سینکڑوں فلسطینی دیہاتوں کو ویران اور تباہ وبرباد کردیا گیا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی وسیع اکثریت کو، دونوں یعنی 1949 میں جنگ کے اختتام پر بنائی گئی عارضی صلح کی لائنوں کے باہر اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کو ان کی جائیداد واپس مانگنے پر پابندی لگائی گئی۔ 1948 ءمیں فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے بعد، اسرائیلی تسلسل کیساتھ بڑھتے ہوئے نسلی، تاریخی اور ثقافتی صفائی کی ایک منظم پالیسی پر قائم ہیں۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک فلسطینیوں نے استقامت کیساتھ مہاجرین، غیر ملکی، ظلم و ستم اور محرومی کا شکار لوگوں کی حیثیت سے اپنا وجود قائم رکھا، لیکن پھر بھی وہ اپنی دلیرانہ جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ اسرائیل مسلسل زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی رہتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکے کہ فلسطینیوں کا اپنے ملک واپس آنے کے حق کو ہمیشہ کےلئے دفن کردے۔ اسرائیل مغرب کی حمایت، خاص طور پر امریکی حمایت کےساتھ، فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہ دینے میں کامیاب رہا ہے، عرب بُزدلی بھی اتنی ہی مجرم ہے۔
اسرائیلیوںنے، ان کی سیاسی اور اقتصادی حقوق کی پامالی پر بھی اکتفا نہیں کیا،اور مغربی کنارے کے اطراف ایک ’دیوار‘ تعمیر کی تاکہ اسکے ذریعے ان پر جسمانی طور اپنے مخصوص رنگبھید والی چھاپ کو نافذکرسکے ، جو کہ بالکل اسی طرح شیطانی ہے جسکی مشق سفید فام جنوبی افریقی کرتے رہے ۔ فلسطینی اسے ’ نسلی افتراق کی دیوار‘ کہتے ہیں، کچھ اسے’ رنگبھید دیوار‘ کہتے ہےں اور درحقیقت بھی یہ یہی چیز ہے، جبکہ مغرب اور اس کا کم ظرف میڈیا اسے ایک’ سیکورٹی رکاوٹ‘ کہتا ہے۔ مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اور اس کے اندر یہ رنگبھید نافذ کرنے والی دیوار تقریبا 760 کلومیٹر طویل ہے اور اس کے سبب مغربی کنارے کا 8.5 فیصد علاقہ اور 27520 فلسطینی ’اسرائیلی‘ علاقے میں چلے جائیں گے اور دیگر 3.4 فیصد علاقہ اور 247800 باشندے مکمل یا جزوی طور پر اس سے گھرے ہوئے ہوں گے۔ دیوار نے غیر امتیازی طور سے فلسطینیوں کی زندگی کو برباد کر دیا ہے، ان کی حرکت کو محدود اور انہیں الگ تھلگ کرکے بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ بیت جالا کے عیسائی قصبے میں 57 عیسائی خاندانوں کو بھی ان کی زمین سے محروم کرے گا۔
فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان یوم نکبہ کی جھڑپیں، جس میں 200 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے، قلندیا کی چیک پوسٹ پروقوع پذیر ہوئیں، جوکہ یروشلم اور رملہ کے درمیان اور بوتینیا میں واقع اوفر کی فوجی جیل کے قریب ہے، جہاں 1500 فلسطینی سیاسی قیدیوں نے حال ہی میں اپنی دو ماہ طویل عرصے کی بھوک ہڑتال اپنے مطالبات کی منظوری کے بعد ختم کی تھی۔ وہ ’انتظامی حراست‘ کےخلاف احتجاج کر رہے تھے، یعنی کسی فرد جرم یا سماعت کے بغیر حراست کی پالیسی۔ اس سال مظاہرین نے اس کلیدی نعرے کواپنایا: ’حیفا، ہم یقیناواپس آ ئیں گے۔‘
بہت سی قوموں کے اپنے ایامِ نکبہ ہیں۔ 27 مارچ 1948 بلوچ کا یوم نکبہ ہے، جب بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں شامل کرلیا گیا تھا اور تب سے بلوچ کو پانچ فوجی آپریشنوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عداوتوںکا تازہ ترین دور، در اصل ایک ’غلیظ جنگ‘ ، جس کا آغاز 2005 میں ہوا تھا، یہ انگنت لوگوںکو غائب اور قتل کرنے کے ساتھ انتہائی حد تک شیطانی رہی ہے۔ حال ہی میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران فرنٹیئر کور (ایف سی ) کے انسپکٹر جنرل ، میجر جنرل عبیدا ﷲ خٹک کو جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ باوردی ایف سی اہلکار ایک بلوچ، مہران خان کو اغواءکرکے لے جارہے ہیں، تو اس نے ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ امکان موجود ہے کہ نامعلوم افراد کی جانب سے ایف سی کے یونیفارم کو غلط استعمال کیا جا رہا ہو ۔
لوگ اکثر فہم و ذہانت کی توہین کرتے ہیں لیکن پہلے کبھی بھی اتنی بے حیائی سے اس کی توہین نہیں کی گئی۔ ایف سی کے آئی جی نے اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر تے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 18 ماہ میں سیکورٹی فورسز 1900 دفعہ عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ، مارچ 1948 کے بعد سے اب تک کسی کو سیکورٹی فورسز کی طرف سے بلوچ پر کیے گئے حملوں اور مظالم کے اعداد و شمار پیش کرنے کا خیال نہیں آیا۔ سپریم کورٹ لاچار ہی رہے گی جہاں تک کہ طاقتور محکموں کا تعلق ہے۔
بلوچ کے درمیان نفوذ پذیر وسیع احساس بیگانگی میں جبر اور اقتصادی محرومی کے تناسب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جب ریاست اس الجھی ہوئی حالت سے نکلنا چاہے اور غربت سرایت کرچکی ہو، امیر غریب کا فرق بڑھتا جائے، تو یہ صرف مزید دوریاں بڑھائے گی اور ناامیدی کے احساس کو جنم دے گی۔ ہر طرف غربت پھیلی ہوئی ہے، لیکن دوسری جگہوں پر بہتری کی امید موجود ہے جبکہ بلوچستان میں صرف ناامیدی ہے جو کہ سب سے زیادہ قابل غورہے۔ بلوچ عوام کو اب ضرورت سے زیادہ فخریہ انداز سے دہرائی جانیوالی انصاف اور حقوق کے اقدامات کے وعدوں پر اعتماد نہیں رہا۔ لہٰذا اب وہ اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کررہے ہیں۔
سندھیوں میں بھی تیزی سے بیگانگی بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں شاید سندھی بھی 14 اگست، 1947 ءکے دن کو یوم نکبہ کے طور پر منائیں، کیونکہ اسی دن نے ان کی قسمت سر بہ مہر کی تھی جوکہ ان کی تمام مشکلات کا باعث ہے۔ مزید برآں، اب ایم کیو ایم کے ایک مہاجر صوبہ (پناہ گزین صوبے) کا مطالبہ کر رہی ہے، جوکہ اردو بولنے والے جنوبی سندھ اور سندھی بولنے والے شمالی صوبے کی صورت میں سندھ کی تقسیم کی کوشش ہے۔ جلد ہی سندھ قبرص کی طرح جھگڑوں سے لبریز خطے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ غیر منصفانہ اور غیر قانونی مطالبہ قبرص طرز کی خانہ جنگی کے لئے ایک خاص ترکیب ہے لیکن سندھ کوئی جزیرہ نہیں اور یہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی وہاں جنوبی سندھ میں اردو بولنے افراد کی ایک بھاری اکثریت ہے۔ ایک علیحدہ صوبے کی یہ تمام باتیں صرف اشتعال انگیز بیمار ذہن کی عکاس ہیں۔ سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کرنے کے بجائے، بہتر ہوگا کہ ایم کیو ایم پُرامن طور پر رہے کیونکہ سندھ کی اپنے آپ کیساتھ جنگ ایک بڑی آگ لگا دے گی جو کہ سب بھسم کردے گی ۔ اگر بے وقوف حکمران اس تقسیم کو قبول کرلیں، تو یہ سندھ کےلئے ایک یوم نکسہ ہو گا۔
سیلگ ہیریسن اپنی کتاب ’بلوچ قومیت اور سوویت یونین کی تحریص‘میں ، سندھ میں بڑے پیمانے پر آباد بلوچ آبادی اور سندھی اور بلوچ رہنماو¿ں کے درمیان وقفے وقفے سے جاری تعاون کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگست 1978 میں ، میرے والد، میر علی احمد ٹالپر نے، ایک انٹرویو میں کہا، ”اگر صورتحال بدتر سے بدترین ہوجائے اور پاکستان کو تقسیم ہونا پڑے تو بلوچ اور سندھی ایک ساتھ ہونگے۔ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اورممکن ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی ایک وفاقی ریاست بنا لیں۔“ سندھ کی تقسیم کے اس غیرمنصفانہ مطالبہ سے شاید یہ پیشن گوئی ایک حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔ صورتحال بلوچ اور سندھی کے درمیان متحدہ جدوجہد کی متقاضی ہے۔
ترجمہ: لطیف بلیدی
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
[email protected]
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،20 مئی 2012
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C05%5C20%5Cstory_20-5-2012_pg3_2
14 مئی، 1948 کو اسرائیل کی تخلیق کے بعد فلسطینیوں کی اپنی زمین سے جبری انخلاءکی یاد میںفلسطینیوں نے 15 مئی کو چونسٹھ واں یوم النکبہ یا تباہی کا دن منایا۔ ’یوم النکبہ‘ کا دن ایک واقعہ کے طور پر نہیں منایا جاتا ہے بلکہ فلسطینیوں کی نقل مکانی، قبضِ حقوق اور محرومی کے عمل کے طور پر منایا جاتا ہے کہ جب اس کا آغاز ہوا اور انہیں نقصان پہنچانے کیلئے جاری رہا۔
لبنان اسرائیل سرحد پر گزشتہ سال کے یوم النکبہ کے مارچ کو ’ فلسطین کی واپسی کے لیے مارچ‘ کا نام دیا گیا، مظاہرین ان نعروں کیساتھ کہ ”اے فلسطین ہم اپنی روح ، اپنے خون، ہم خود کو تمہارے لئے قربان کردیں گے۔“ اسرائیلی افواج نے براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے سو سے زائد مظاہرین کو زخمی اور چھ کو ہلاک کردیا، جن میں سے دو چھ اور آٹھ سال کے عمر کی بچیاںتھیں؛ کُل بارہ مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ’یوم النکسہ‘ پر، جس کے معنی ’یومِ تنزلّی‘ ہے، جسے 5 جون کو 1967 ءکی چھ روزہ جنگ کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کی یادمیں منایا جاتا ہے، جوکہ جون میں گولان کے قریب منایا گیا، اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں بیس مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
1948 میں فلسطین کی جنگ کے دوران، قریب 750000 فلسطینیوں کو نکال باہر کیا گیااور سینکڑوں فلسطینی دیہاتوں کو ویران اور تباہ وبرباد کردیا گیا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی وسیع اکثریت کو، دونوں یعنی 1949 میں جنگ کے اختتام پر بنائی گئی عارضی صلح کی لائنوں کے باہر اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد کو ان کی جائیداد واپس مانگنے پر پابندی لگائی گئی۔ 1948 ءمیں فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے بعد، اسرائیلی تسلسل کیساتھ بڑھتے ہوئے نسلی، تاریخی اور ثقافتی صفائی کی ایک منظم پالیسی پر قائم ہیں۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک فلسطینیوں نے استقامت کیساتھ مہاجرین، غیر ملکی، ظلم و ستم اور محرومی کا شکار لوگوں کی حیثیت سے اپنا وجود قائم رکھا، لیکن پھر بھی وہ اپنی دلیرانہ جدوجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ اسرائیل مسلسل زمینی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی رہتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکے کہ فلسطینیوں کا اپنے ملک واپس آنے کے حق کو ہمیشہ کےلئے دفن کردے۔ اسرائیل مغرب کی حمایت، خاص طور پر امریکی حمایت کےساتھ، فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہ دینے میں کامیاب رہا ہے، عرب بُزدلی بھی اتنی ہی مجرم ہے۔
اسرائیلیوںنے، ان کی سیاسی اور اقتصادی حقوق کی پامالی پر بھی اکتفا نہیں کیا،اور مغربی کنارے کے اطراف ایک ’دیوار‘ تعمیر کی تاکہ اسکے ذریعے ان پر جسمانی طور اپنے مخصوص رنگبھید والی چھاپ کو نافذکرسکے ، جو کہ بالکل اسی طرح شیطانی ہے جسکی مشق سفید فام جنوبی افریقی کرتے رہے ۔ فلسطینی اسے ’ نسلی افتراق کی دیوار‘ کہتے ہیں، کچھ اسے’ رنگبھید دیوار‘ کہتے ہےں اور درحقیقت بھی یہ یہی چیز ہے، جبکہ مغرب اور اس کا کم ظرف میڈیا اسے ایک’ سیکورٹی رکاوٹ‘ کہتا ہے۔ مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اور اس کے اندر یہ رنگبھید نافذ کرنے والی دیوار تقریبا 760 کلومیٹر طویل ہے اور اس کے سبب مغربی کنارے کا 8.5 فیصد علاقہ اور 27520 فلسطینی ’اسرائیلی‘ علاقے میں چلے جائیں گے اور دیگر 3.4 فیصد علاقہ اور 247800 باشندے مکمل یا جزوی طور پر اس سے گھرے ہوئے ہوں گے۔ دیوار نے غیر امتیازی طور سے فلسطینیوں کی زندگی کو برباد کر دیا ہے، ان کی حرکت کو محدود اور انہیں الگ تھلگ کرکے بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ بیت جالا کے عیسائی قصبے میں 57 عیسائی خاندانوں کو بھی ان کی زمین سے محروم کرے گا۔
فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان یوم نکبہ کی جھڑپیں، جس میں 200 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے، قلندیا کی چیک پوسٹ پروقوع پذیر ہوئیں، جوکہ یروشلم اور رملہ کے درمیان اور بوتینیا میں واقع اوفر کی فوجی جیل کے قریب ہے، جہاں 1500 فلسطینی سیاسی قیدیوں نے حال ہی میں اپنی دو ماہ طویل عرصے کی بھوک ہڑتال اپنے مطالبات کی منظوری کے بعد ختم کی تھی۔ وہ ’انتظامی حراست‘ کےخلاف احتجاج کر رہے تھے، یعنی کسی فرد جرم یا سماعت کے بغیر حراست کی پالیسی۔ اس سال مظاہرین نے اس کلیدی نعرے کواپنایا: ’حیفا، ہم یقیناواپس آ ئیں گے۔‘
بہت سی قوموں کے اپنے ایامِ نکبہ ہیں۔ 27 مارچ 1948 بلوچ کا یوم نکبہ ہے، جب بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں شامل کرلیا گیا تھا اور تب سے بلوچ کو پانچ فوجی آپریشنوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عداوتوںکا تازہ ترین دور، در اصل ایک ’غلیظ جنگ‘ ، جس کا آغاز 2005 میں ہوا تھا، یہ انگنت لوگوںکو غائب اور قتل کرنے کے ساتھ انتہائی حد تک شیطانی رہی ہے۔ حال ہی میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران فرنٹیئر کور (ایف سی ) کے انسپکٹر جنرل ، میجر جنرل عبیدا ﷲ خٹک کو جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ باوردی ایف سی اہلکار ایک بلوچ، مہران خان کو اغواءکرکے لے جارہے ہیں، تو اس نے ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ امکان موجود ہے کہ نامعلوم افراد کی جانب سے ایف سی کے یونیفارم کو غلط استعمال کیا جا رہا ہو ۔
لوگ اکثر فہم و ذہانت کی توہین کرتے ہیں لیکن پہلے کبھی بھی اتنی بے حیائی سے اس کی توہین نہیں کی گئی۔ ایف سی کے آئی جی نے اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر تے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 18 ماہ میں سیکورٹی فورسز 1900 دفعہ عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ، مارچ 1948 کے بعد سے اب تک کسی کو سیکورٹی فورسز کی طرف سے بلوچ پر کیے گئے حملوں اور مظالم کے اعداد و شمار پیش کرنے کا خیال نہیں آیا۔ سپریم کورٹ لاچار ہی رہے گی جہاں تک کہ طاقتور محکموں کا تعلق ہے۔
بلوچ کے درمیان نفوذ پذیر وسیع احساس بیگانگی میں جبر اور اقتصادی محرومی کے تناسب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جب ریاست اس الجھی ہوئی حالت سے نکلنا چاہے اور غربت سرایت کرچکی ہو، امیر غریب کا فرق بڑھتا جائے، تو یہ صرف مزید دوریاں بڑھائے گی اور ناامیدی کے احساس کو جنم دے گی۔ ہر طرف غربت پھیلی ہوئی ہے، لیکن دوسری جگہوں پر بہتری کی امید موجود ہے جبکہ بلوچستان میں صرف ناامیدی ہے جو کہ سب سے زیادہ قابل غورہے۔ بلوچ عوام کو اب ضرورت سے زیادہ فخریہ انداز سے دہرائی جانیوالی انصاف اور حقوق کے اقدامات کے وعدوں پر اعتماد نہیں رہا۔ لہٰذا اب وہ اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کررہے ہیں۔
سندھیوں میں بھی تیزی سے بیگانگی بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں شاید سندھی بھی 14 اگست، 1947 ءکے دن کو یوم نکبہ کے طور پر منائیں، کیونکہ اسی دن نے ان کی قسمت سر بہ مہر کی تھی جوکہ ان کی تمام مشکلات کا باعث ہے۔ مزید برآں، اب ایم کیو ایم کے ایک مہاجر صوبہ (پناہ گزین صوبے) کا مطالبہ کر رہی ہے، جوکہ اردو بولنے والے جنوبی سندھ اور سندھی بولنے والے شمالی صوبے کی صورت میں سندھ کی تقسیم کی کوشش ہے۔ جلد ہی سندھ قبرص کی طرح جھگڑوں سے لبریز خطے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ غیر منصفانہ اور غیر قانونی مطالبہ قبرص طرز کی خانہ جنگی کے لئے ایک خاص ترکیب ہے لیکن سندھ کوئی جزیرہ نہیں اور یہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی وہاں جنوبی سندھ میں اردو بولنے افراد کی ایک بھاری اکثریت ہے۔ ایک علیحدہ صوبے کی یہ تمام باتیں صرف اشتعال انگیز بیمار ذہن کی عکاس ہیں۔ سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کرنے کے بجائے، بہتر ہوگا کہ ایم کیو ایم پُرامن طور پر رہے کیونکہ سندھ کی اپنے آپ کیساتھ جنگ ایک بڑی آگ لگا دے گی جو کہ سب بھسم کردے گی ۔ اگر بے وقوف حکمران اس تقسیم کو قبول کرلیں، تو یہ سندھ کےلئے ایک یوم نکسہ ہو گا۔
سیلگ ہیریسن اپنی کتاب ’بلوچ قومیت اور سوویت یونین کی تحریص‘میں ، سندھ میں بڑے پیمانے پر آباد بلوچ آبادی اور سندھی اور بلوچ رہنماو¿ں کے درمیان وقفے وقفے سے جاری تعاون کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگست 1978 میں ، میرے والد، میر علی احمد ٹالپر نے، ایک انٹرویو میں کہا، ”اگر صورتحال بدتر سے بدترین ہوجائے اور پاکستان کو تقسیم ہونا پڑے تو بلوچ اور سندھی ایک ساتھ ہونگے۔ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اورممکن ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی ایک وفاقی ریاست بنا لیں۔“ سندھ کی تقسیم کے اس غیرمنصفانہ مطالبہ سے شاید یہ پیشن گوئی ایک حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔ صورتحال بلوچ اور سندھی کے درمیان متحدہ جدوجہد کی متقاضی ہے۔
ترجمہ: لطیف بلیدی
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
[email protected]
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،20 مئی 2012
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C05%5C20%5Cstory_20-5-2012_pg3_2