ببول کے درخت سے اسٹرابیری کی توقع
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
ترجمہ: لطیف بلیدی
ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی گزشتہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں خلاف معمول سطح تک پہنچ چکی ہیں، اور بلوچستان میں عام شہریوں کے اغواء پر تشویش کا اظہار کیا تھا
اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں، جوکہ اولیویئر ڈی فراوولے اور عثمان ال حجے اور دیگر پر مشتمل ہے، خاص طور پر ’جبری گمشدگی‘ اور بنیادی طور پر بلوچستان کی تھرا دینے والی اور کم حد تک صوبہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں انسانی حقوق کی حالت کا جائزہ لینے کے سلسلے میں 10 دن کے دورے نے قومی اسمبلی میں غم و غصہ کی لہر پیدا کی ہے اور اسے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ ملک اور اس کے نمائندے نہیں دیکھے جو ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی بین الاقوامی سطح پر قابل احترام انسانی حقوق کے ماہرین پر مشتمل وفد کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ یہ کوئی ریمبو تو نہیں ہیں۔
بلوچستان پر خصوصی توجہ کیساتھ، اپنے دورے کے دوران، اس وفد کے ارکان کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں، سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے ملکر جبری طور لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ پیش کرنا ہے، جو کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے متاثرین کی بازیابی کیلئے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لے گی۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی گزشتہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں خلاف معمول سطح تک پہنچ چکی ہیں، اور بلوچستان میں عام شہریوں کے اغواء پر تشویش کا اظہارکیا تھا۔ انہیں فوجی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی ملنا ہے، لیکن رپورٹوں کیمطابق ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں، ایک جونیئر وزیر، محمد رضا حیات ہراج نے اس مشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، ”یہ ملک کے ٹوٹنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔“ انہوں نے اسے ”دفتر خارجہ کی ایک حصے میں ایک ناکامی“ بھی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے معاملہ کی زیر سماعت ہونے کی کمزور بنیادوں پر ملنے سے انکار کردیا ہے جبکہ ایف سی بلوچستان کے انسپکٹر جنرل نے ایک مختلف عذر پر ملنے کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ سراسر مالیخولیا اور غیرگریزی نے اسٹابلشمنٹ اور اس کے نمائندوں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے لیکن پھر ان سے اور کوئی امید بھی تو نہیں کی جا سکتی جنہیں اپنے کیے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کی جانچ پڑتال کا ڈر ہو۔
اس وفد کے ارکان ان کی تنظیم کی درخواست پر یہاں آئے ہیں۔ آئی اے رحمان نے ایک قومی انگریزی روزنامے (19 جولائی، 2012) میں اپنے مضمون، ”اقوام متحدہ اور لاپتہ افراد“ میں کہا کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے اسلام آباد سے درخواست کی تھی کہ اس کے مشن کو دورے کیلئے 29 ستمبر، 2010 کو مدعو کیا جائے لیکن انکی درخواست دو بار مسترد کردی گئی۔ یہ بات حنا ربانی کھر کے اس دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیتی ہے کہ انہوں نے ان کو مدعو کیا ہے۔ وہ اس بات کا مزید مشاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں جو کچھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر نوی پیلے نے یہاں اپنے دورے کے دوران دیکھا اورسنا۔ اپنے چار روزہ دورے کے بعد، 6 جون کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ”میں انسداد دہشت گردی اور انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے تناظر میں بہت سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات سے فکر مند ہوں.... جن میں ماورائے عدالت قتل، غیرتسلیم شدہ حراست اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں،“ اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ، ”میں کسی بھی صورت میں عام شہریوں کے بلا امتیاز قتل اور انکے زخمی ہونے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر دیکھتی ہوں۔“ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بلوچستان میں گمشدگیوں نے ”قومی بحث میں ایک خصوصی توجہ، بین الاقوامی توجہ اور مقامی مایوسی“ کی شکل اختیار کرلی ہے اور حکومت اور عدلیہ کو مقدمات کی تحقیقات اور انکے حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے دورے نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق دفاع کونسل کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے وفد سے ملاقات کی اور 700 افراد کی فہرست پیش کی؛ انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ مقدمات کا اندراج عالمی سطح کے ادارے میں کرائیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بنگلزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے تقریباً 14000 افراد غائب ہو چکے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وفد کو انتہائی بے ادبی اور بیہودگی سے بتایا کہ صرف 29 افراد لاپتہ ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو ایجنسیوں کی انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے، ابھی تک 204 خاندانوں کے افراد بذات خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جو اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ان لوگوں کو نظر انداز کیا بلکہ تقریباً ان 600 افراد کو بھی جنہیں اغواء اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کرکے پھینک دیا گیا، ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے جو بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہیں وفود سے ملاقات کیلئے دو گھنٹے کا دورانیہ دیا گیا ہے۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا بلوچستان کا متوقع دورہ غیر یقینی سے دوچار ہے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے شعبہءحفاظت اور سلامتی کی داخلی سیکورٹی رپورٹ اور وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے سیکورٹی کلیئرنس پر منحصر ہے۔ یہ دورہ شاید سیکورٹی خدشات کی بناء پر منسوخ کر دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چیتا کبھی بھی اپنی فطرت تبدیل نہیں کرے گا۔ پاکستانی اسٹابلشمنٹ خود کو رواداری اور جمہوریت کے ایک آوتار کے طور پر پیش کرنے کی جتنی سخت کوشش کر لے، مگر بنیادی طور پر یہ ان کا قطعی متضاد ہے۔ تنوع کیخلاف انکے اندر موجود عدم برداشت اتنی ہی متعصبانہ ہے جتنی کہ یہ نسلی امتیاز پر مبنی ہے، اور یہ اس حد تک ہے کہ کچھ جنرلوں نے بنگالیوں کی شناخت کو ان کے جین کی ’صفائی‘ کے ذریعے تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خالد احمد ایک قومی انگریزی روزنامے (7 جولائی، 2012) میں اپنے مقابل ادارتی صفحے میں، ’مشرقی پاکستان میں جینیاتی انجینئرنگ‘ میں میجر جنرل (ر) خادم حسین راجہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی: مشرقی پاکستان، 1969 تا 1971 (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2012) سے حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ، ”کمانڈر مشرقی پاکستان جنرل نیازی جوکہ اپنی ویب بیلٹ پر چمڑے کا ایک پستول دان پہنے ہوئے تھے۔ نیازی توہین آمیز بن چکا تھا اور ہذیان بکنے لگا تھا۔ اردو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں اس حرامی قوم کی نسل بدل دونگا۔ یہ مجھے سمجھتے کیا ہیں۔‘ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنے فوجیوں کو ان کی عورتوں پر چھوڑدیں گے۔ ان خیالات کے اظہار پر وہاں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ اگلی صبح، ہمیں یہ اداس خبر دی گئی۔ ایک بنگالی افسر، میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک باتھ روم میں چلا گیا اور اپنے آپ کو سر میں گولی مار دی“ (صفحہ: 98)۔
میرے جلاوطن دوست ثناءاللہ بلوچ نے، جب بلوچ کیخلاف مظالم پر بے حسی پر نوحہ کناں ہوتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”ارکان پارلیمنٹ خاموش ہیں جبکہ شہری غائب کیے جارہے ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جارہا ہے۔ جب اقوام متحدہ کا معتبر ادارہ اس جرم کے ارتکاب کا نوٹس لیتاہے تو وہ روتے ہیں۔“ اس کے جواب میں، میں نے ٹویٹ کیا، ”یہاں ارکان پارلیمنٹ سے دیکھنے یا مظالم کے بارے میں بات کرنے کی توقع رکھنا ببول کے درخت سے اسٹرابیری کی توقع رکھنے جیسا ہے۔“ بے شک، پاکستان سے بلوچ کیلئے انصاف کی توقع رکھنا اتنا ہی بھولا پن اور بے وقوفی ہے جتنی کہ ببول سے اسٹرابیری کی توقع رکھنا ہے۔ اس بات کو بھی سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا دورہ بلوچ کی اُفتادگی کو ذرہ بھر بھی تبدیل نہیں کریگی بلکہ اس سے صرف ان کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ جس ذہنیت اور رویے کیخلاف بلوچ لڑ رہے ہیں وہ اکڑاہٹ لیے عیاں ہے؛ پاکستان اپنی پسند کا ایک حل نکالنے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن اگر بلوچ کے درمیان اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جن کا ایمان ہے کہ انتخابات اور آئینی سیاست انہیں ان کے حقوق دلا دیگی، تو ان کیلئے البرٹ آئنسٹائن کا یہ اقتباس، ”پاگل پن کی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا“، مکمل طور پر قابل اطلاق ہے۔
اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ برائے جبری یا غیر رضاکارانہ گمشدگیاں، جوکہ اولیویئر ڈی فراوولے اور عثمان ال حجے اور دیگر پر مشتمل ہے، خاص طور پر ’جبری گمشدگی‘ اور بنیادی طور پر بلوچستان کی تھرا دینے والی اور کم حد تک صوبہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں انسانی حقوق کی حالت کا جائزہ لینے کے سلسلے میں 10 دن کے دورے نے قومی اسمبلی میں غم و غصہ کی لہر پیدا کی ہے اور اسے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ پیدا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ ملک اور اس کے نمائندے نہیں دیکھے جو ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی بین الاقوامی سطح پر قابل احترام انسانی حقوق کے ماہرین پر مشتمل وفد کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ یہ کوئی ریمبو تو نہیں ہیں۔
بلوچستان پر خصوصی توجہ کیساتھ، اپنے دورے کے دوران، اس وفد کے ارکان کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں، سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے ملکر جبری طور لاپتہ افراد کے بارے میں معلومات جمع کرنا اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ پیش کرنا ہے، جو کہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے متاثرین کی بازیابی کیلئے حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لے گی۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی گزشتہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیاں خلاف معمول سطح تک پہنچ چکی ہیں، اور بلوچستان میں عام شہریوں کے اغواء پر تشویش کا اظہارکیا تھا۔ انہیں فوجی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی ملنا ہے، لیکن رپورٹوں کیمطابق ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں، ایک جونیئر وزیر، محمد رضا حیات ہراج نے اس مشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ، ”یہ ملک کے ٹوٹنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔“ انہوں نے اسے ”دفتر خارجہ کی ایک حصے میں ایک ناکامی“ بھی قرار دیا۔ چیف جسٹس نے معاملہ کی زیر سماعت ہونے کی کمزور بنیادوں پر ملنے سے انکار کردیا ہے جبکہ ایف سی بلوچستان کے انسپکٹر جنرل نے ایک مختلف عذر پر ملنے کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ سراسر مالیخولیا اور غیرگریزی نے اسٹابلشمنٹ اور اس کے نمائندوں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے لیکن پھر ان سے اور کوئی امید بھی تو نہیں کی جا سکتی جنہیں اپنے کیے گئے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کی جانچ پڑتال کا ڈر ہو۔
اس وفد کے ارکان ان کی تنظیم کی درخواست پر یہاں آئے ہیں۔ آئی اے رحمان نے ایک قومی انگریزی روزنامے (19 جولائی، 2012) میں اپنے مضمون، ”اقوام متحدہ اور لاپتہ افراد“ میں کہا کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی نے اسلام آباد سے درخواست کی تھی کہ اس کے مشن کو دورے کیلئے 29 ستمبر، 2010 کو مدعو کیا جائے لیکن انکی درخواست دو بار مسترد کردی گئی۔ یہ بات حنا ربانی کھر کے اس دعوے کو بھی جھوٹا قرار دیتی ہے کہ انہوں نے ان کو مدعو کیا ہے۔ وہ اس بات کا مزید مشاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں جو کچھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمشنر نوی پیلے نے یہاں اپنے دورے کے دوران دیکھا اورسنا۔ اپنے چار روزہ دورے کے بعد، 6 جون کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ”میں انسداد دہشت گردی اور انسداد بغاوت کی کارروائیوں کے تناظر میں بہت سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات سے فکر مند ہوں.... جن میں ماورائے عدالت قتل، غیرتسلیم شدہ حراست اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں،“ اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ، ”میں کسی بھی صورت میں عام شہریوں کے بلا امتیاز قتل اور انکے زخمی ہونے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر دیکھتی ہوں۔“ انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ بلوچستان میں گمشدگیوں نے ”قومی بحث میں ایک خصوصی توجہ، بین الاقوامی توجہ اور مقامی مایوسی“ کی شکل اختیار کرلی ہے اور حکومت اور عدلیہ کو مقدمات کی تحقیقات اور انکے حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ کے دورے نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق دفاع کونسل کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے وفد سے ملاقات کی اور 700 افراد کی فہرست پیش کی؛ انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ مقدمات کا اندراج عالمی سطح کے ادارے میں کرائیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بنگلزئی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے تقریباً 14000 افراد غائب ہو چکے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس (ر) جاوید اقبال نے وفد کو انتہائی بے ادبی اور بیہودگی سے بتایا کہ صرف 29 افراد لاپتہ ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو ایجنسیوں کی انتقامی کارروائیوں کا خدشہ ہے، ابھی تک 204 خاندانوں کے افراد بذات خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جو اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ان لوگوں کو نظر انداز کیا بلکہ تقریباً ان 600 افراد کو بھی جنہیں اغواء اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کرکے پھینک دیا گیا، ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے جو بلوچ حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہیں وفود سے ملاقات کیلئے دو گھنٹے کا دورانیہ دیا گیا ہے۔
ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا بلوچستان کا متوقع دورہ غیر یقینی سے دوچار ہے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے شعبہءحفاظت اور سلامتی کی داخلی سیکورٹی رپورٹ اور وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے سیکورٹی کلیئرنس پر منحصر ہے۔ یہ دورہ شاید سیکورٹی خدشات کی بناء پر منسوخ کر دیا جائے گا۔
یہ سب کچھ صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ چیتا کبھی بھی اپنی فطرت تبدیل نہیں کرے گا۔ پاکستانی اسٹابلشمنٹ خود کو رواداری اور جمہوریت کے ایک آوتار کے طور پر پیش کرنے کی جتنی سخت کوشش کر لے، مگر بنیادی طور پر یہ ان کا قطعی متضاد ہے۔ تنوع کیخلاف انکے اندر موجود عدم برداشت اتنی ہی متعصبانہ ہے جتنی کہ یہ نسلی امتیاز پر مبنی ہے، اور یہ اس حد تک ہے کہ کچھ جنرلوں نے بنگالیوں کی شناخت کو ان کے جین کی ’صفائی‘ کے ذریعے تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خالد احمد ایک قومی انگریزی روزنامے (7 جولائی، 2012) میں اپنے مقابل ادارتی صفحے میں، ’مشرقی پاکستان میں جینیاتی انجینئرنگ‘ میں میجر جنرل (ر) خادم حسین راجہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی: مشرقی پاکستان، 1969 تا 1971 (آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2012) سے حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ، ”کمانڈر مشرقی پاکستان جنرل نیازی جوکہ اپنی ویب بیلٹ پر چمڑے کا ایک پستول دان پہنے ہوئے تھے۔ نیازی توہین آمیز بن چکا تھا اور ہذیان بکنے لگا تھا۔ اردو میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں اس حرامی قوم کی نسل بدل دونگا۔ یہ مجھے سمجھتے کیا ہیں۔‘ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنے فوجیوں کو ان کی عورتوں پر چھوڑدیں گے۔ ان خیالات کے اظہار پر وہاں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ اگلی صبح، ہمیں یہ اداس خبر دی گئی۔ ایک بنگالی افسر، میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک باتھ روم میں چلا گیا اور اپنے آپ کو سر میں گولی مار دی“ (صفحہ: 98)۔
میرے جلاوطن دوست ثناءاللہ بلوچ نے، جب بلوچ کیخلاف مظالم پر بے حسی پر نوحہ کناں ہوتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”ارکان پارلیمنٹ خاموش ہیں جبکہ شہری غائب کیے جارہے ہیں اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جارہا ہے۔ جب اقوام متحدہ کا معتبر ادارہ اس جرم کے ارتکاب کا نوٹس لیتاہے تو وہ روتے ہیں۔“ اس کے جواب میں، میں نے ٹویٹ کیا، ”یہاں ارکان پارلیمنٹ سے دیکھنے یا مظالم کے بارے میں بات کرنے کی توقع رکھنا ببول کے درخت سے اسٹرابیری کی توقع رکھنے جیسا ہے۔“ بے شک، پاکستان سے بلوچ کیلئے انصاف کی توقع رکھنا اتنا ہی بھولا پن اور بے وقوفی ہے جتنی کہ ببول سے اسٹرابیری کی توقع رکھنا ہے۔ اس بات کو بھی سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کا دورہ بلوچ کی اُفتادگی کو ذرہ بھر بھی تبدیل نہیں کریگی بلکہ اس سے صرف ان کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ جس ذہنیت اور رویے کیخلاف بلوچ لڑ رہے ہیں وہ اکڑاہٹ لیے عیاں ہے؛ پاکستان اپنی پسند کا ایک حل نکالنے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن اگر بلوچ کے درمیان اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جن کا ایمان ہے کہ انتخابات اور آئینی سیاست انہیں ان کے حقوق دلا دیگی، تو ان کیلئے البرٹ آئنسٹائن کا یہ اقتباس، ”پاگل پن کی تعریف یہ ہے کہ ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا“، مکمل طور پر قابل اطلاق ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداء سے ایک تعلق ہے
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز، اتوار، 16 ستمبر، 2012