محض عظیم جذبات عظیم انسان نہیں بناتے
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
جابرانہ نظام کے ساتھ معاہدے صرف مظلوم کے ذہن اور جسم کی غلامی کے طوق کو مضبوط کرتے ہیں
ا”یہ قوت نہیں بلکہ عظیم جذبات کی مدت ہے جو کہ عظیم انسان بناتے ہیں۔“ جرمن فلسفی شاعر فریڈرک نطشے (1844 تا 1900) کا یہ مسلّم اقتباس کسی بھی باوقار جدوجہد میں مستقل مزاجی اور استقامت کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ استقامت اور ثابت قدمی بالآخر کامیاب ہوتی ہیں۔
رنگبھیدی دور کے جنوبی افریقہ میں سیاہ فام افریقیوں کو بے اندازہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، اور وہاں ضرور بہت سے لوگ ہونگے جنہوں نے نا انصافی کے اس گھناو ¿نے نظام کو درست کرنے کاعزم کیا ہوگا اور اس کے خلاف جدوجہد کی ہوگی، لیکن یہ نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھی تھے جو کامیاب ہوئے۔ان کی کامیابی کا راز عظیم جذبات کی استقامت تھی؛ دوسرے ناکام رہے کیونکہ ان کے جذبات، تاہم شدید تھے، مگر ان میں مستقل مزاجی کا فقدان تھاجو منڈیلا کی جدوجہد میں تھی۔ منڈیلا 27 سال تک قید میں رہے، جن میں سے 18 سال انہوں نے بدنام زمانہ روبن جزیرہ جیل میں گزارے۔ درجہ بندی کے لحاظ سے وہ ڈی گروپ کے ایک قیدی تھے، انہیں ہر چھ ماہ صرف ایک ملاقاتی اورایک خط کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ تین قدموںمیں اپنے سیل کی لمبائی میںچل سکتے تھے اور جب وہ لیٹ جاتے تو ان کے پیرچھت کو چھو لیتے، جبکہ ان کا سر سامنے والی دیوار پر رگڑ کھاتی۔ فروری 1985 میں صدر پی ڈبلیو بوتا نے اس شرط پر منڈیلا کو ان کی رہائی کی پیشکش کی کہ وہ ’غیر مشروط طور پر تشدد کو بطور ایک سیاسی ہتھیار مسترد کر دیں۔‘ انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا، ”مجھے کیسی آزادی کی پیکش کی جاری ہے جہاں عوام کی تنظیم پر پابندی عائد ہے؟ صرف آزاد لوگ بات چیت کر سکتے ہیں۔ ایک قیدی کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا۔“ وہ جنوبی افریقہ کے بہادر لوگوں کی طرح ثابت قدم رہے اور بالآخر نسل پرستوں کو شکست ہوئی۔
مومیا ابو جمال بطور ویسلی کُک 24 اپریل 1954 کو پیدا ہوئے۔ اب انکی عمر 58 ہے، وہ اس وقت قید میں ہیں؛ انہیں 9 دسمبر 1982 کو، 1981 میں فلاڈیلفیا کے پولیس افسر ڈینیل فاکنرکے قتل کیلئے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ اگست 1995 ءاور دسمبر 1999 ءکو موت پرعملدرآمد کی دو تاریخوںمیں بچ گئے۔ گزشتہ سال دسمبر میں، طویل سماعتِ مکررکے بعد، انہیں پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔
جب انہوں نے 1968 میں جارج والس کی صدارت کیلئے نکالی جانیوالی ریلی کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی تو ’سفید فام نسل پرستوں‘ اور پولیس اہلکاروںنے انکی پٹائی کی، اسکے بعد ابو جمال نے بلیک پینتھر پارٹی کی فلاڈیلفیا شاخ قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ اس تجربہ نے انہیں بلیک پینتھر پارٹی میں جانے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے تصنیفی معلومات اور خبری مواصلات کے لئے فرائض کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن اکتوبر 1970 میں انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا، مگر پھر بھی وہ 1974 تک ایف بی آئی کی زیرنگرانی رہے۔ 1975 ءتک وہ ریڈیو نیوز کاسٹنگ میں روزگار کی تلاش کرتے رہے اورانہیں’نوائے بے نوا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اپنی گرفتاری سے قبل، وہ بلیک پینتھر پارٹی کے ایک سرگرم کارکن، پارٹ ٹائم ٹیکسی ڈرائیور، صحافی، ریڈیو کی شخصیت، خبر مبصر اور براڈکاسٹر تھے۔ جون 1982 کے مقدمے میں ابتدائی طور پر جمال نے اپنی نمائندگی خود کی لیکن یہ سہولت ان سے چھین لی گئی جب جج البرٹ سابو، جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے کیس کے حوالے سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ، ”جی ہاں، اور میں اُنہیں اس حبشی کو بھوننے میں مدد کرنے جا رہا ہوں“، اور اعلان کیا کہ وہ جان بوجھ کر خلل ڈالتے آرہے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ اُنکی زبان بندی کی گئی۔ مشاورت کے تین گھنٹوں بعد جیوری نے متفقہ طور پر انہیں موت کی سزا سنائی۔ اس ناقص مقدمے کی سماعت کی جانبدار جیوری اور جج نے ’گورے کے‘ انصاف پر مبنی سزا سنائی۔
بلوچستان میں اب تو پاکستانی ریاست نے انصاف کا دکھاوا بھی چھوڑ دیا ہے اور ماورائے عدالت قتل روز کا معمول ہیں۔ 28 مئی کو، محمد خان مری اور ان کے بھائی، بازی پیردادانی کے فرزندوں سمیت ، جنہیں میں افغانستان میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے اچھی طرح جانتا تھا، سات مغوی بلوچوں کی تشدد زدہ لاشیںبرآمد ہوئیں۔
ابو جمال کی روح کو، قید کی تین دہائیاں اور حال ہی میں ان پر پھانسی کی صورت موت کے منڈلاتے خطرے کے باوجود ، نہ توڑ سکیں اور وہ ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا عزم اور جدوجہد واقعی متاثر کن ہیں۔ سبق یہ ہے کہ ظالم دشمن کی اطاعت شرمناک ہے، جبکہ مزاحمت سب سے زیادہ باوقار روش ہے، ان لوگوں کیلئے جو اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں۔
مومیا کی اعلانیہ نافرمانی اس سے ظاہر ہے جب وہ کہتے ہیں کہ، ”میں اپنے دن زندگی کی تیاری میں گزارتا ہوں، موت کی تیاری میں نہیں …. وہ مجھے وہ سب کچھ کرنے سے نہیں روک سکے جو میں ہر روز کرنا چاہتا ہوں۔ میں زندگی پہ یقیں رکھتا ہوں، میں آزادی پہ یقین رکھتا ہوں، اسی لئے میرے ذہن کو موت ہڑپ نہ سکی۔ یہ محبت، زندگی، اور انہی چیزوں کے ساتھ ہے۔ کئی طریقوں سے، کئی دنوں میں، صرف میرا جسم یہاں ہے، کیونکہ میں اس بارے میں سوچتا رہتا ہوں کہ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دشمن کو یہ اجازت دے دو کہ وہ تمہیں تمہارے طرز فکر کی کی ہدایت دے، اور تم اس کے جبر پررد عمل کرو،اور اسے اپنے خیالات کے تعین کا کنٹرول کرنے کی اجازت دے دو تو جبر دوگنا تباہ کن ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ تمہارے ذہن کو مفلوج کردیتا ہے۔
مومیا اپنی تحریروں میں اپنے لڑنے کی روح کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ”جب کوئی مقصد سامنے آجائے اور آپ اپنی ہڈیوں تک میں یہ جانتے ہوں کہ یہ صحیح ہے، اور تب بھی اس کا دفاع کرنے سے منکر رہیں، اسی لمحے ، آپ مرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور میں نے کبھی بھی اتنی ساری لاشیں نہیں دیکھیں جوکہ ارد گرد پھرتی انصاف کی باتیں کرتی ہیں۔“ وہ جو خاموشی سے ناانصافیوں کو دیکھتے رہیں زندہ لاشیں بن جاتے ہیں اور ایسا کرنا سب سے زیادہ شرمناک کام ہے، خاص طور پر جب مظلوم انسانیت کو حامیوں کی اشد ضرورت ہو۔ تقریباً تیس سال کی جیل اورواضح موت انہیں روک نہیں پائی اور نہ ہی انہوں نے اپنے ذہن کو اس مقصد سے الگ کرنے کی اجازت دی۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظام کے خلاف مزاحمت کرنا سب سے زیادہ معقول عمل ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ، ”کیا آپ کو کہیں قانون اور نظام دکھائی دیتا ہے؟ یہاں سوائے بے ضابطگیوںکے اور کچھ نہیں ہے، اور قانون کے بجائے، یہاں سیکورٹی کا سراب ہے۔ یہ ایک فریب النظری ہے کیونکہ یہ نا انصافیوں کی ایک طویل تاریخ پر تعمیرگئی ہے: نسل پرستی، جرائم، اور لاکھوں کی نسل کشی پر۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نظام کی مخالفت کرنا پاگل پن ہے، لیکن اصل میں، نہ کرنا پاگل پن ہے۔“
بے شک، اس جابرانہ نظام کی مخالفت نہ کرنا پاگل پن ہے جو کہ لوگوں کو ان کے حقوق دینے سے انکاری ہو۔ جابرانہ نظام کے ساتھ معاہدے صرف مظلوم کے ذہن اور جسم کی غلامی کے طوق کو مضبوط کرتے ہیں۔ وہ تمام لوگ کو جو نظام کے اندررہتے ہوئے تبدیلی کیلئے کام کرنے کی بات کرتے ہیں، جان بوجھ کر عوام کو اس جدوجہد کے درست راستے سے گمراہ کررہے ہیں۔ وہ لوگوں پر ایک عظیم نقصان رسانی کا کام کررہے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہیے کہ ظالم اور نوآبادکار کے نظام کی خدمت کرتے ہوئے وہ اپنے لوگوں کو کوڑیوں کے عوض فروخت کررہے ہیں۔
بلوچ جدوجہد مستقل مزاجی اور شدت سے فیضیاب ہے اور اس چیز نے اسکے حق میں کام کیا ہے۔ بلوچ جدوجہد کی زوردار مستقل مزاجی اور ثابت قدمی نے پاکستان کی ’اسٹابلشمنٹ‘ کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے اور بلوچ عوام کیخلاف اس کی انتقامی کارروائیاں بے مثال سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ یہاں بہادر اور پرعزم بلوچ کو وہ قسمت تو حاصل نہیں ہے جو کہ نیلسن منڈیلا یا مومیا ابو جمال کو حاصل تھا، پھر بھی بالآخر انہیں حاصل ہوجائے گا۔ کچھ وقت تک، ان کا انجام ’لاپتہ اور جاں بحق افراد‘ کی ناختم ہونے والی فہرست پر ہوتا رہے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ان ہی جیسے لوگ ہیںجو ہمیشہ ہر جگہ جدوجہد کی کامیابی متعین کرنے میں اہم عنصر رہے ہیں۔ یہ بہادر روحیں زندہ لاشوں کی طرح رہنے سے منکر ہیں اور منکر ہیں اس جبر اور تشدد سے جسے ریاست ان پر انکے ارادوں توڑ نے کیلئے استعمال کرتی ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
ترجمہ: لطیف بلیدی
[email protected]
Azeem.Jazbat.Azeem.Log_Mir Mohammad Ali Talpur بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،3 جون 2012
ا”یہ قوت نہیں بلکہ عظیم جذبات کی مدت ہے جو کہ عظیم انسان بناتے ہیں۔“ جرمن فلسفی شاعر فریڈرک نطشے (1844 تا 1900) کا یہ مسلّم اقتباس کسی بھی باوقار جدوجہد میں مستقل مزاجی اور استقامت کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ استقامت اور ثابت قدمی بالآخر کامیاب ہوتی ہیں۔
رنگبھیدی دور کے جنوبی افریقہ میں سیاہ فام افریقیوں کو بے اندازہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، اور وہاں ضرور بہت سے لوگ ہونگے جنہوں نے نا انصافی کے اس گھناو ¿نے نظام کو درست کرنے کاعزم کیا ہوگا اور اس کے خلاف جدوجہد کی ہوگی، لیکن یہ نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھی تھے جو کامیاب ہوئے۔ان کی کامیابی کا راز عظیم جذبات کی استقامت تھی؛ دوسرے ناکام رہے کیونکہ ان کے جذبات، تاہم شدید تھے، مگر ان میں مستقل مزاجی کا فقدان تھاجو منڈیلا کی جدوجہد میں تھی۔ منڈیلا 27 سال تک قید میں رہے، جن میں سے 18 سال انہوں نے بدنام زمانہ روبن جزیرہ جیل میں گزارے۔ درجہ بندی کے لحاظ سے وہ ڈی گروپ کے ایک قیدی تھے، انہیں ہر چھ ماہ صرف ایک ملاقاتی اورایک خط کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ تین قدموںمیں اپنے سیل کی لمبائی میںچل سکتے تھے اور جب وہ لیٹ جاتے تو ان کے پیرچھت کو چھو لیتے، جبکہ ان کا سر سامنے والی دیوار پر رگڑ کھاتی۔ فروری 1985 میں صدر پی ڈبلیو بوتا نے اس شرط پر منڈیلا کو ان کی رہائی کی پیشکش کی کہ وہ ’غیر مشروط طور پر تشدد کو بطور ایک سیاسی ہتھیار مسترد کر دیں۔‘ انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا، ”مجھے کیسی آزادی کی پیکش کی جاری ہے جہاں عوام کی تنظیم پر پابندی عائد ہے؟ صرف آزاد لوگ بات چیت کر سکتے ہیں۔ ایک قیدی کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا۔“ وہ جنوبی افریقہ کے بہادر لوگوں کی طرح ثابت قدم رہے اور بالآخر نسل پرستوں کو شکست ہوئی۔
مومیا ابو جمال بطور ویسلی کُک 24 اپریل 1954 کو پیدا ہوئے۔ اب انکی عمر 58 ہے، وہ اس وقت قید میں ہیں؛ انہیں 9 دسمبر 1982 کو، 1981 میں فلاڈیلفیا کے پولیس افسر ڈینیل فاکنرکے قتل کیلئے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ اگست 1995 ءاور دسمبر 1999 ءکو موت پرعملدرآمد کی دو تاریخوںمیں بچ گئے۔ گزشتہ سال دسمبر میں، طویل سماعتِ مکررکے بعد، انہیں پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔
جب انہوں نے 1968 میں جارج والس کی صدارت کیلئے نکالی جانیوالی ریلی کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کی تو ’سفید فام نسل پرستوں‘ اور پولیس اہلکاروںنے انکی پٹائی کی، اسکے بعد ابو جمال نے بلیک پینتھر پارٹی کی فلاڈیلفیا شاخ قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ اس تجربہ نے انہیں بلیک پینتھر پارٹی میں جانے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے تصنیفی معلومات اور خبری مواصلات کے لئے فرائض کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن اکتوبر 1970 میں انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا، مگر پھر بھی وہ 1974 تک ایف بی آئی کی زیرنگرانی رہے۔ 1975 ءتک وہ ریڈیو نیوز کاسٹنگ میں روزگار کی تلاش کرتے رہے اورانہیں’نوائے بے نوا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اپنی گرفتاری سے قبل، وہ بلیک پینتھر پارٹی کے ایک سرگرم کارکن، پارٹ ٹائم ٹیکسی ڈرائیور، صحافی، ریڈیو کی شخصیت، خبر مبصر اور براڈکاسٹر تھے۔ جون 1982 کے مقدمے میں ابتدائی طور پر جمال نے اپنی نمائندگی خود کی لیکن یہ سہولت ان سے چھین لی گئی جب جج البرٹ سابو، جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے کیس کے حوالے سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ، ”جی ہاں، اور میں اُنہیں اس حبشی کو بھوننے میں مدد کرنے جا رہا ہوں“، اور اعلان کیا کہ وہ جان بوجھ کر خلل ڈالتے آرہے ہیں۔ یوں کہا جائے کہ اُنکی زبان بندی کی گئی۔ مشاورت کے تین گھنٹوں بعد جیوری نے متفقہ طور پر انہیں موت کی سزا سنائی۔ اس ناقص مقدمے کی سماعت کی جانبدار جیوری اور جج نے ’گورے کے‘ انصاف پر مبنی سزا سنائی۔
بلوچستان میں اب تو پاکستانی ریاست نے انصاف کا دکھاوا بھی چھوڑ دیا ہے اور ماورائے عدالت قتل روز کا معمول ہیں۔ 28 مئی کو، محمد خان مری اور ان کے بھائی، بازی پیردادانی کے فرزندوں سمیت ، جنہیں میں افغانستان میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے اچھی طرح جانتا تھا، سات مغوی بلوچوں کی تشدد زدہ لاشیںبرآمد ہوئیں۔
ابو جمال کی روح کو، قید کی تین دہائیاں اور حال ہی میں ان پر پھانسی کی صورت موت کے منڈلاتے خطرے کے باوجود ، نہ توڑ سکیں اور وہ ناانصافیوں کیخلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا عزم اور جدوجہد واقعی متاثر کن ہیں۔ سبق یہ ہے کہ ظالم دشمن کی اطاعت شرمناک ہے، جبکہ مزاحمت سب سے زیادہ باوقار روش ہے، ان لوگوں کیلئے جو اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں۔
مومیا کی اعلانیہ نافرمانی اس سے ظاہر ہے جب وہ کہتے ہیں کہ، ”میں اپنے دن زندگی کی تیاری میں گزارتا ہوں، موت کی تیاری میں نہیں …. وہ مجھے وہ سب کچھ کرنے سے نہیں روک سکے جو میں ہر روز کرنا چاہتا ہوں۔ میں زندگی پہ یقیں رکھتا ہوں، میں آزادی پہ یقین رکھتا ہوں، اسی لئے میرے ذہن کو موت ہڑپ نہ سکی۔ یہ محبت، زندگی، اور انہی چیزوں کے ساتھ ہے۔ کئی طریقوں سے، کئی دنوں میں، صرف میرا جسم یہاں ہے، کیونکہ میں اس بارے میں سوچتا رہتا ہوں کہ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دشمن کو یہ اجازت دے دو کہ وہ تمہیں تمہارے طرز فکر کی کی ہدایت دے، اور تم اس کے جبر پررد عمل کرو،اور اسے اپنے خیالات کے تعین کا کنٹرول کرنے کی اجازت دے دو تو جبر دوگنا تباہ کن ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ تمہارے ذہن کو مفلوج کردیتا ہے۔
مومیا اپنی تحریروں میں اپنے لڑنے کی روح کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ”جب کوئی مقصد سامنے آجائے اور آپ اپنی ہڈیوں تک میں یہ جانتے ہوں کہ یہ صحیح ہے، اور تب بھی اس کا دفاع کرنے سے منکر رہیں، اسی لمحے ، آپ مرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور میں نے کبھی بھی اتنی ساری لاشیں نہیں دیکھیں جوکہ ارد گرد پھرتی انصاف کی باتیں کرتی ہیں۔“ وہ جو خاموشی سے ناانصافیوں کو دیکھتے رہیں زندہ لاشیں بن جاتے ہیں اور ایسا کرنا سب سے زیادہ شرمناک کام ہے، خاص طور پر جب مظلوم انسانیت کو حامیوں کی اشد ضرورت ہو۔ تقریباً تیس سال کی جیل اورواضح موت انہیں روک نہیں پائی اور نہ ہی انہوں نے اپنے ذہن کو اس مقصد سے الگ کرنے کی اجازت دی۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظام کے خلاف مزاحمت کرنا سب سے زیادہ معقول عمل ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ، ”کیا آپ کو کہیں قانون اور نظام دکھائی دیتا ہے؟ یہاں سوائے بے ضابطگیوںکے اور کچھ نہیں ہے، اور قانون کے بجائے، یہاں سیکورٹی کا سراب ہے۔ یہ ایک فریب النظری ہے کیونکہ یہ نا انصافیوں کی ایک طویل تاریخ پر تعمیرگئی ہے: نسل پرستی، جرائم، اور لاکھوں کی نسل کشی پر۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نظام کی مخالفت کرنا پاگل پن ہے، لیکن اصل میں، نہ کرنا پاگل پن ہے۔“
بے شک، اس جابرانہ نظام کی مخالفت نہ کرنا پاگل پن ہے جو کہ لوگوں کو ان کے حقوق دینے سے انکاری ہو۔ جابرانہ نظام کے ساتھ معاہدے صرف مظلوم کے ذہن اور جسم کی غلامی کے طوق کو مضبوط کرتے ہیں۔ وہ تمام لوگ کو جو نظام کے اندررہتے ہوئے تبدیلی کیلئے کام کرنے کی بات کرتے ہیں، جان بوجھ کر عوام کو اس جدوجہد کے درست راستے سے گمراہ کررہے ہیں۔ وہ لوگوں پر ایک عظیم نقصان رسانی کا کام کررہے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہیے کہ ظالم اور نوآبادکار کے نظام کی خدمت کرتے ہوئے وہ اپنے لوگوں کو کوڑیوں کے عوض فروخت کررہے ہیں۔
بلوچ جدوجہد مستقل مزاجی اور شدت سے فیضیاب ہے اور اس چیز نے اسکے حق میں کام کیا ہے۔ بلوچ جدوجہد کی زوردار مستقل مزاجی اور ثابت قدمی نے پاکستان کی ’اسٹابلشمنٹ‘ کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا ہے اور بلوچ عوام کیخلاف اس کی انتقامی کارروائیاں بے مثال سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ یہاں بہادر اور پرعزم بلوچ کو وہ قسمت تو حاصل نہیں ہے جو کہ نیلسن منڈیلا یا مومیا ابو جمال کو حاصل تھا، پھر بھی بالآخر انہیں حاصل ہوجائے گا۔ کچھ وقت تک، ان کا انجام ’لاپتہ اور جاں بحق افراد‘ کی ناختم ہونے والی فہرست پر ہوتا رہے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ان ہی جیسے لوگ ہیںجو ہمیشہ ہر جگہ جدوجہد کی کامیابی متعین کرنے میں اہم عنصر رہے ہیں۔ یہ بہادر روحیں زندہ لاشوں کی طرح رہنے سے منکر ہیں اور منکر ہیں اس جبر اور تشدد سے جسے ریاست ان پر انکے ارادوں توڑ نے کیلئے استعمال کرتی ہے۔
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
ترجمہ: لطیف بلیدی
[email protected]
Azeem.Jazbat.Azeem.Log_Mir Mohammad Ali Talpur بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،3 جون 2012