گاوں کے احمق کو یاد دہانی
تبصرہ : میر محمد علی ٹالپر
ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان میں صورتحال تو پہلے ہی سے جمہوری سے زیادہ ایمرجنسی سے مماثلت رکھتی ہے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا رسمی اعلان کہ ”آئین اپنا راستہ خود ہی بنالے گی اگر وزیر اعظم بلوچستان کے بحران کو حل کرنے کیلئے فوری طور پر اقدامات کرنے میں ناکام ہوئے“، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ صوبے میںہوشمندی کی بحالی کیلئے ایک راستہ ہوسکتی ہے، اس چیز نے بلوچ عوام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑادی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”تمام بڑے سیاسی کھلاڑیوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آئین کے عدم عملدرآمد کے نتیجے میں ایک سے زیادہ مرتبہ مارشل لاءکا نفاذ ہوچکا ہے“، انہوں نے مزید کہا، ”کیوں نہ ہم آئین پر عملدرآمد کرلیں اس سے پہلے کہ فوج مارشل لاءنافذ کرلے۔“ بلوچ اس منحوس دھمکی کے پیچھے اصل وجہ کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنھیں لگتا ہے کہ وہی اس کا ہدف ہیں، جوکہ مظالم اور ایک سست رفتار نسل کشی کا شکارہیں، اس کا ہدف ’اسٹابلشمنٹ‘ اور اسکے ادارے تو نہیں ہیں جوکہ اصل قصوروار ہیں؛ ظاہر ہے، اس بات پر زور دینا ریاست کو بلوچستان میں ایک ’ایمرجنسی‘ مسلط کرنے پر اکسانے کے مترادف ہے۔ سندھ میں ایک حکایت ہے کہ ایک گاوں کے بیشتر باشندے ہمسایہ گاوں میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے کئی روزہ قیام کیلئے جا رہے تھے اور صرف گاوں کا احمق ہی ایک تھا جسے پیچھے رہ جانا تھا۔ جب دیہاتی گاوں سے روانگی کیلئے تیار ہوئے تو گاوں کے بزرگوں نے ان کی غیر موجودگی کے دوران اس کے طرز عمل کی بابت گاوں کے احمق کو مشورہ دینے کی امید کرتے ہوئے اس سے کہا، ”دیکھو ، اب تم ہماری غیرموجودگی کے دوران گاوں کو آگ مت لگادینا۔“گاوں کے احمق نے خوشی سے تالی بجائی اور کہا کہ، ”باپ رے! ایہ امکان تو میرے ذہن میں آیا ہی نہیں، مجھے یاد دلانے کیلئے آپ کاشکریہ۔“ اس بیان نے یہی کام کیا ہے؛ اس نے ’گاوں کے احمق‘ کو یہ یاد دلایا ہے کہ وہ گاوں کو آگ لگانے کے امکان کو تو بھول ہی گیا ہے، یعنی کہ جبر کو بڑھا نا اور وہ سب بھی معطل کرنا جو کچھ دکھاوے کیلئے بنیادی حقوق بلوچستان میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس کے بیان نے ممتازقانونی ماہرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔ معروف قانون دان جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے ان ریمارکس پر حیرت کا اظہار کیا، اور اس سلسلے میں عدلیہ کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ”صرف ایگزیکٹو کو ہی کسی ہنگامی صورت حال کے اعلان کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپکے پاس کیا اختیارات ہیں؟ میں نہیں جانتا کہ چیزیں کس سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔“ بلوچوں میںاضطراب کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے، جو منحوس رُخ ’لاپتہ افراد‘ کے بارے میں ہونیوالی اس سماعت نے اختیار کرلی ہے۔بظاہر اس سماعت کا مقصد لاپتہ افراد کی بازیابی ہے، لیکن اسے ایجنسیوں کو ہنگامی حالت کے تحت مظالم کا ارتکاب کرنے کی اجازت دینے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے، معطلیءحقوق کے اختیار کو استعمال کیا جا رہا ہے؛ لیکن پھرکوئی اس ریاست سے اور کیا توقع کر سکتا ہے جو کہ بلوچستان میں صرف اس کے وسائل میں دلچسپی رکھتی ہو۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ: ”ہنگامی حالت ایک سرکاری اعلان ہے جو کہ انتظامیہ ،مقنّنہ اور عدلیہ کے معمول کے کچھ اختیارات کی فعالیت کو معطل کرسکتی ہے، شہریوں کو انکے معمول کے رویے میں تبدیلی لانے پر آمادہ کرتی ہے، یاحکومتی ایجنسیوں کو ہنگامی حالت لاگو کرنے کے منصوبوں کی تیاری کا حکم دے سکتی ہے۔ اسے حقوق اور آزادیوں کی معطلی کیلئے بطور بِنائے منطقی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر آئین کے تحت انکی ضمانت دی گئی ہو۔“ ہنگامی حالت کے دوران فوج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں، اس طرح، بنیادی طور پر، اس رسمی اعلان کامطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچ کو مزید جبر کا نشانہ بنانے کیلئے اُنہیں باضابطہ طور پراختیارات دیے جائیں۔ فرنٹیئر کور تو پہلے ہی سے بلوچستان میں ایک ’متوازی حکومت‘ چلارہی ہے اور اپنی مرضی سے لوگوں کو’لاپتہ‘ کررہی ہے، لیکن شاید وہ یہ محسوس کررہی ہو کہ بلوچستان کی ربرا سٹامپ حکومت اور مقننہ بھی ان کیلئے ایک رکاوٹ ہے۔ایک ہنگامی حالت سویلین مداخلت کے عذر کو بھی دور کردے گی جس طرح کے جبر کی پالیسی کو وہ بلوچ کے خلاف اپنانا چاہتے ہیں۔ ریاست کے سب سے بڑے عدالتی افسر کی طرف سے آنے والا یہ بیان کسی طرح بھی قانون کی حکمرانی کی حمایت نہیں کرتا؛ اسکے بجائے، یہ ان لوگوں کیلئے ہنگامی حالت کے اختیارات کو استعمال کرنے کے حق میں ہے جو لوگوں کو لاپتہ اور قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بات بالکل لومڑی کو مرغیوں کے ڈربے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی کی وکالت کرنے جیسا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان میں صورتحال تو پہلے ہی سے جمہوری سے زیادہ ایمرجنسی سے مماثلت رکھتی ہے اور مارشل لاءکی دھمکی کیساتھ ایمرجنسی کے باضابطہ نفاذ کی دلیل صرف اس گٹھ جوڑ ہے کو ظاہر کرتی ہے جو ہمیشہ سے عدلیہ اور فوج کے درمیان موجود رہی ہے۔ جہاں بھی اور جب بھی ضرورت پڑی، عدلیہ کبھی بھی فوج کو مدد دینے میں پیچھے نہیں رہی، چاہے اس کے اعمال کو فعال طور پر درگزر کرنا ہو یا ایک خاموش تماشائی بننا ہونا۔ ایک حقیقی ہنگامی حالت تو پہلے سے ہی بلوچستان میں نافذ العمل ہے، اس بیان سے اسے باضابطہ طور پر نافذ کرنے میںمددمل سکتی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ریاست یہ بات بھول رہی ہے کہ اگر گزشتہ 65 سالوں کے مظالم اور جبر بلوچ کو ڈرا نہ سکیں، تواس میں اضافے بھی ناکام ہونگے۔ میں کراچی میں اس ماہ کے اوائل میں T2F کے زیر اہتمام بلوچستان پر ’دلچسپ مکالمے‘میں شریک تھا۔ ناظرین میں سے ایک نے کہا ہے کہ الزامات تھوپنے کے بجائے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔ میں نے جواب دیا کہ اس کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں : ایک مہارت اور دوسرے آلات۔مجھے وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ بلوچستان میں ریاست کی مہارت ایک منظم اغواءاور قتل کی پالیسی تک محدود ہیں اور جو آلات اس کے پاس ہیں وہ وسیع انواع کے تباہ کن ہتھیار ہیںجنھیں ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سابق بوسنیائی سرب فوجی سربراہ راتکو میلادچ کے مقدمے کی سماعت کے بارے میں جارج مونبیوٹ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں سچ ہی کہا، ”’نسل کشی‘ کی اصطلاح ذہن میں یہ بات لاتی ہے کہ ایک گروہ کے تمام لوگوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنا: جرمنوں کا یہودیوں کا قتل عام کرنا اور دیسی امریکیوں کا صفحہءہستی سے مٹانے کے قریب لانا۔ لیکن جرم کی نشاندہی اس کی کامیابی کے پیمانے پر انحصار نہیں کرتا: نسل کشی کے معنی ہیں ’اس ارادے اور عزم سے کارروائیاں کرنا کہ جن سے ایک قومی، نسلی، ثقافتی نسل یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہو۔“ بلوچستان میں جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ جب ڈیڑھ سال میں 500 سے زائد افراد قتل ہو رہے ہوں اورہزاروں کی تعداد میں لوگ غائب ہوں، یہ یقیناایک نسل کشی ہے۔ اس بیان نے بلوچ کے ذہن سے اس گمان کو نکال پھینکا ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ ذرّہ بھر بھی ان کے مطالبات کو ماننے میں دلچسپی رکھتا ہے یا اس نسل کشی کو روکنا چاہتا ہے جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ نچلے سے ایک اعلیٰ درجے پر ترقی کرچکی ہے۔ وہ اب یہ بات صاف طور پر سمجھ رہے ہیں کہ انکی قسمت انکے اپنے ہاتھوں میں ہے اور انہیں مسلسل جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاہ فام امریکی انسانی حقوق کے سرگرم کارکن فریڈرک ڈگلس (1818 تا 1895) نے بجا طور پر کہا تھا، ”جابر کی حدود اس کے جبر کو سہنے والوں کی قوت برداشت مقرر کر تی ہیں۔“ بلوچ کو پتہ ہے کہ خود کی حفاظت اور اپنے مطالبات کا حصول انہی پر منحصر ہے، اگر وہ محض انصاف کے جھوٹے وعدوںسے، اور ریاستی اداروں کی طرف سے انکے حقوق کا احترام کرنے کے دعووں سے ، جنھیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، بلوچ اپنی جدوجہد کرنے کے حق سے دستبردار ہوجائیں تو وہ ہمیشہ کیلئے برباد ہوجائیں گے۔ ریاستی ظلم پر وہ جتنا زیادہ خاموشی اختیار کریں گے، یقینا انہیں اتنا ہی زیادہ کچلا جائے گا۔
ترجمہ: لطیف بلیدی
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
[email protected]
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،27 مئی 2012
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C05%5C27%5Cstory_27-5-2012_pg3_2
ترجمہ: لطیف بلیدی
مصنف کا بلوچ حقوق کی تحریک سے 1970 کی دہائی کے ابتداءسے ایک تعلق ہے
[email protected]
بشکریہ: ڈیلی ٹائمز ، اتوار ،27 مئی 2012
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2012%5C05%5C27%5Cstory_27-5-2012_pg3_2