خصوصی رپورٹ: قتل سے پاکستان کا ”ہیروئن سرغنہ“ توجہ کا مرکز رپورٹ : میتھیو گرین مترجم : لطیف بلیدی
File photo of Imam Bheel
روئٹرز – مارچ کی ایک رات پولیس کو پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی کے ایک پوش علاقے میں کھڑی ایک سیاہ رنگ کے ٹویوٹا کے پیچھے ایک لاش پڑی ملی ہے
یہ آدمی ایک ممتاز سرکاری ملازم، جسکا نام عبد الرحمن دشتی تھا، اسے چہرے پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی گھڑی، انگوٹھی اور پیسے غائب تھے۔ تھوڑی سی دوری پر، ملازم ایک شاندار گھر کے صحن سے خون رگڑ کر صاف کر رہے تھے، یہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک بیوپاری امام بھیل کا گھر تھا۔ کیمرے کے عملے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل شوکت علی شاہ نے مشتبہ قاتل کا نام خود بھیل بتایا۔ الزام نے اس آدمی کے گرد موجود خاموشی کی دیوار میں دراڑیں ڈال دیں، جسے واشنگٹن افغانستان میں پوست کے کھیتوں سے لیکر مغرب کی سڑکوں کے کونے کونے پر ہیروئن کی فراہمی کے چین میں ایک اہم دربان گردانتا ہے۔ تین سال قبل، صدر براک اوباما نے بھیل کو بین الاقوامی منشیات کا ایک ”سرغنہ“ نامزد کیا، اس کی درجہ بندی وینزویلا، کولمبیا اور میکسیکو کے منشیات کے آقاوں کیساتھ کی گئی۔ اس اعلان نے پاکستانی میڈیا میں بہت کم توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور پولیس کی پریشانی سے آزاد وہ کراچی میں خاموشی سے رہ رہا تھا۔ گزشتہ سال پاکستان کو سوالات کے ایک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جب اسامہ بن لادن کو اسلام آباد کے باہر ایک فوجی اکیڈمی کے قریب امریکی حملے میں ہلاک کیا گیا۔ پاکستان میں یا بیرون ملک بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ ملک 68 ارب ڈالر کی عالمی افیمی منشیات کی صنعت میں ایک بڑے مشتبہ کھلاڑی کا مسکن ہے کہ جس نے القاعدہ کی طرف سے کیے گئے حملوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ زندگیاں چھینی ہیں۔ قتل اور بھیل کے سیاستدانوں کیساتھ روابط، سرکار کی رواداری کی حد تک پاکستان میں ہیروئن کی اسمگلنگ اور اسکے تباہ کن اثرات پر کارروائی کی کمی کے سبب جوہری ہتھیاروں سے مسلح غیر مستحکم ریاست پر نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ خاموشی کا پردہ دشتی کیس قابل ذکر محض سنسنی خیز الزام کی وجہ سے نہیں ہے: ہیروئن گروہ کے مشتبہ سربراہ نے ایک معروف ایڈمنسٹریٹر کو اپنے گھر پر آنے کی دعوت دی اور پھر اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ دشتی کی موت پر پاکستانی حکام نے جس خاموشی کا خیرمقدم کیا وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ بھیل کا نام اسلام آباد میں سفارت کاروں کے درمیان تقریباً نامعلوم ہے، صرف ایجنٹوں کا ایک چھوٹے سا حلقہ منشیات کے اس مبینہ کردار سے واقف ہے۔ ایک مغربی اہلکار نے کہا، ”وہ طویل عرصے سے قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی نظروں میں رہا ہے۔ کبھی کوئی اسکے قریب گیا اور اسے چھوا؟ نہیں۔“ بھیل سینیٹروں کا دوست ہے اور اسکا سب سے بڑا بیٹا قومی اسمبلی کا رکن ہے۔ ایک بار بھیل نے خود ایک سیاستدان کی طرف سے مہم چلائی جو کہ طاقتور فوج کے ساتھ منسلک تھی۔ بلوچ ذرائع کا کہنا ہے کہ قتل کے بعد بھیل اپنے آبائی علاقے مکران واپس چلا گیا جو بلوچستان میں بحیرہءعرب کیساتھ ایک ساحلی پٹی ہے۔ بھیل پر دباو ڈالنا تو دور کی بات ہے، اس کیس نے اسکے بڑھتے ہوئے اعتماد کو نمایاں کیا ہے، ایک پاکستانی انٹیلی جنس عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا جو بلوچستان میں خدمات انجام دے چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ”وہ وہاں ایک شاہوکار ہے، ایک ڈان ہے۔“ سب سے بڑا خطرہ جسکا بھیل کو سامنا ہے، وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہیں ہے، بلکہ ایک آزاد بلوچستان کیلئے لڑنے والے باغیوں کی طرف سے ہے۔ گوریلاو ں، کہ جنہوں نے کئی دیگر مشتبہ ہیروئن کے اسمگلروں کو ہلاک کیا ہے، الزام لگاتے ہیں کہ بھیل انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے مخبری کرتا ہے، وہ کہتے رہے ہیں کہ بھیل نے مشتبہ علیحدگی پسندوں کے اغوا، تشدد اور قتل کرنے کی ایک مہم چلا رکھی ہے۔ فوج اسکی تردید کرتی ہے۔ ”اس نے ہمارے بھائی کو مار ڈالا“ تبصرہ کیلئے ان کے خاندانی ذرائع سے کی جانیوالی درخواستوں کا بھیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بھیل کے سب سے بڑا بیٹے یعقوب بزنجو اس بات سے انکار کرتے ہیں ان کے والد ایک منشیات فروش ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ تیس سالہ یعقوب نے، جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں، کہا کہ، ”وہ صرف ایک تاجر ہے۔ وہ امیر نہیں ہے۔“ دشتی کے رشتہ دار انصاف کیلئے ایک عوامی مہم چلا رہے ہیں، ان کا غصہ اس حقیقت کے پیش نظر بڑھا ہے کہ دشتی بھیل کو گزشتہ 25 سال جانتا تھا۔ وہ مکران کے ایک ہی علاقے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ دوست ہیں۔
ہمارے نزدیک اس نے حد سے تجاوز کر دیا ہے، اس نے ہمارے بھائی کو مار ڈالا،“ سیاہ وسفید داڑھی والے لاغر بدن فدا دشتی نے کہا، جس نے پہلی بار اپنے بھائی کے قتل کے بارے میں رائٹرز سے کھل کربات کی۔ ”وہ جسے چاہے اسے قتل کرسکتا ہے۔ ہم دوسروں کی طرح چپ نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں اپنی آواز اٹھانی چاہئے۔
جہاں دشتی کے قتل نے اسکے مبسوط خاندان میں ناراضگی پیدا کی ہے، وہاں منشیات کی تجارت میں بھیل کے مشتبہ کردار پر مکران میں کسی خاطر خواہ تبصرے کو نہیں اکسایا ہے، اسمگلروں ایک جنت جہاں جرائم اور تجارت کے درمیان موجود لکیریں دھندلا جاتی ہیں۔ امریکی حکومت کا 1999ء کے سرغنہ ایکٹ کے تحت کی بھیل کو فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے نے، جس کا مقصد مشتبہ ”اہم غیر ملکی منشیات کے تاجروں“ اور ان کے کاروباری شراکت داروں کو امریکی بینکوں کے استعمال کرنے پر پابندی لگانا ہے، بہ مشکل ہی کوئی اثر ڈال سکی ہے۔
”ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ منشیات میں ملوث ہے،“حاصل خان بزنجو نے کہا، جوکہ ایک سینیٹر ہے اور بھیل کو جانتا ہے، یہ تبصرہ بلوچستان میں ہیروئن کے صنعت کی معمول کے نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔”اس نے یہ بات اپنے قریبی دوستوں کے سامنے تسلیم کی ہے۔“
قتل کے بعد سے پولیس نے تبصرہ کرنے کی درخواست کو رد کر رکھا ہے۔ دشتیوں نے مئی میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت کے اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک پولیس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد درخواست مسترد کردی ہے۔ جج پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ اپنے استدلال کی وضاحت کرے۔ افرادی قوت اور رابطے پاکستان سے متعلق مغرب کے سلامتی کے خدشات زیادہ تر افغانستان میں طالبان کی حمایت کے حوالے سے اس کی تاریخ اور اسکے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی بابت مرکوز ہیں۔ قتل کیس ایک ایسے دریچے کو کھولتی ہے جس سے خود پاکستان ایک داخلی خطرہ میں گھرا ہوا ہے: منشیات کی رقم کا ایک سیلاب ہے کہ جس سے سیاست داغدار اور حکام بدعنوان ہورہے ہیں اور ایک وسیع غیر قانونی معیشت پھل پھول رہی ہے۔ افغانستان میں پوست کی پیداوار 2001ء میں طالبان کی بے دخلی کے بعد بڑھ گئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں اس قرمزی پھول کی کاشت تیزی سے کم ہوئی ہے جس سے افیون اور ہیروئن حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستانی گروہوں کے گٹھ جوڑ کا کردار ہیروئن کی تجارت میں مرکزی رہتا ہے، اور انہیں مجرم ٹھہرانا پوست کی کاشت کے خاتمے سے زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، جنوبی افغانستان کے پوست کے کھیتوں سے لیکر بلوچستان کے مکران ساحل کے سمندری کھاڑیوں تک، سالانہ تقریباً 20 ارب ڈالر مالیت کی عالمی ہیروئن کی فراہمی کیلئے اسمگلروں کو ایک اچھا خاصہ حصہ مل جاتا ہے۔ کارخانہ دار اپنی مصنوعات کے بیگ پر بچھو، شیر یا سانپ کیساتھ اپنے دستخطی علامات کی مہر لگا تے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سالانہ تقریباً 1 ارب ڈالر سے لیکر 1.5 ارب ڈالر کی آمدنی پاکستان میں چند ٹرانسپورٹر کما لیتے ہیں۔ باقی ماندہ کا بیشتر حصہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور روس کے منشیات کے دلالوں کو جاتا ہے جو اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ، ”ہم اس منشیات کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ منشیات، اسلحہ اور گولہ بارود اور دہشت گرد سرحد پار سے آ رہے ہیں۔“ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ افراد افغان افیون کے استعمال سے مر رہے ہیں، اور یہ اب تک اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونیوالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ طالبان اور دیگر شورش پسند منشیات کی تجارت سے کم از کم 125 ملین ڈالر سالانہ حاصل کرتے ہیں۔ افیون کی بڑھتی قیمتیں ریکارڈ بلند ترین سطح کے قریب ہیں اور نیٹو افواج کا 2014ء میں افغان فورسز کی حوالگی سے قبل پوست کی کاشت والے علاقوں سے واپسی کے سبب اس صنعت کا مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے۔ ٹرانسپورٹر بھیل بلوچستان میں ایک اکیلا مبینہ بیوپاری نہیں ہے، بلکہ وہ ان میں سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں منشیات کی تجارت سے واقف ایک مغربی اہلکار نے کہا کہ”امام بھیل ٹرانسپورٹر ہے۔ اگر لوگ سامان کی بڑی مقدار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کروانا چاہتے ہیں، تو یہی آدمی ہے جو یہ کر سکتا ہے۔ وہ نیٹ ورک، افرادی قوت اور رابطے فراہم کرتا ہے۔“ بھیل کی اپنی زندگی کو ایک دوسرے قتل نے تشکیل دیا ہے، ان کے والد کی۔ ان کے خاندان کا تعلق القلی کی خصوصیات کی حامل قمری منظر والی راکھ رنگ کے پہاڑوں اور دور دراز قصبوں پر مشتمل ایران اور افغانستان کے درمیان واقع بلوچستان سے ہے۔ یہ پاکستان کا تقریباً نصف ہے لیکن 5 فیصد سے بھی کم آبادی کا مسکن ہے، اس صوبے کی صدیوں پرانی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔
بلوچ قومپرستوں نے اس علاقے کا 1948ء میں پاکستان کا حصہ بننے کے بعد سے بار بار بغاوت کی ہے، اسلام آباد پر یہ الزام لگایا کہ وہ ان کے قدرتی گیس، تانبے اور سونے کا استحصال کرتے ہوئے انہیں شراکت اقتدار میں منصفانہ حصہ دینے سے انکاری ہے۔ آج علیحدگی پسندوں کی ایک نئی نسل نے بغاوت چھیڑ رکھی ہے جو کہ امریکی حمایت یافتہ فوج کی افغانستان کی سرحد سے ملحق طالبان عسکریت پسندوں کیخلاف الگ جنگ کے سبب دھندلا گئی ہے۔ “ہکلا” بولنے میں رکاوٹ کے سبب اسے ”ہکلے“ کا لقب ملا، بھیل کا والد اپنے اونٹوں کی قطاروں کیساتھ وہسکی کے غیرقانونی تاجر کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ ان کا کیریئر 1980ء میں اچانک ختم ہو گیا جب ایک پولیس اہلکار نے ایک سڑک کے کنارے ریستوران میں اسے گولی مار کر ہلاک کردیا، اس پر ایک سال قبل اپنی بیوی اور بیٹے کے قتل کا الزام لگایا۔ اپنے والد کی موت نے امام بھیل کو خاندان کے کاروبار کی باگ ڈور سنبھالنے پر اکسایا، ایک ایسے وقت میں جب افغان افیون پیدا کرنیوالے عالمی منڈیوں میں روابط کے حصول کیلئے کوشاں تھے۔ ایران میں طرح طرح سے رخ بدلنے یا بحیرہء عرب میں دھاووں پر منشیات اتارنے سے پہلے، بھاری ہتھیاروں سے مسلح فور بائی فور گاڑیوں کے قافلے بلوچستان کے صحراوں میں دوڑنا شروع ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھیل اپنی عمر کے ساتویں عشرے میں ہے، 1998ء میں وہ حکام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب تفتیش کاروں نے اسے مکران میں اغواء ہونیوالے طیارے کا مشتبہ ماسٹر مائنڈ نامزد کیا۔ اگلے سال جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی حکومت کو برخواست کیا تو اسمگلر کے بیٹے نے اسے اپنے نام کو صاف کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ بھیل نے مکران میں 2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے پرویز مشرف کی حامی امیدوار زبیدہ جلال کی حمایت کا وعدہ کیا، تاکہ اسکی مدد کے بدلے میں وہ اپنا نام صاف کروالے۔ جلال نے، جوکہ مشرف کی وزیر تعلیم تھی، کہا کہ اس نے بھیل کی حمایت اس یقین دہانی کے بعد قبول کی کہ وہ اب اسمگلنگ میں ملوث نہیں ہے۔ ”اس نے کہا کہ کئی سال پہلے وہ یہ کاروبارچھوڑ چکا ہے،“ جلال نے رائٹرز کو بتایا۔ ”میں نے اسے چیلنج کیا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ اسے اپنا پیسہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ اس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔“ جلال نے کہا کہ نشست جیتنے کے بعد ایک عدالت نے ثبوت کی کمی کے باعث بھیل کیخلاف اغواء کا کیس ختم کردیا۔ بلوچستان میں بہت سوں کے اس خیال کو مزید تقویت ملی ہے کہ حکام ہیروئن کے مشتبہ اسمگلروں کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں، اگر وہ فوج کے سیاسی اتحادیوں کی حمایت کریں۔
صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے کہا کہ، ” فوجی اسٹابلشمنٹ ان کی سیاست پر اثر انداز ہونے میں مدد کے بدلے منشیات کے کاروبار پر اپنی آنکھیں موندھ رہی ہے۔ امام بھیل اسکی ایک مثال ہے۔
طالبان منشیات کی رقم بھیل کا ستارہ دوبارہ ابھرا جب فروری 2008ء کے انتخابات میں پاکستان میں سویلین حکومت واپس آگئی اور اس کے بیٹے نے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ اکتوبر میں بھیل کو اس سے بھی بڑا برتحفہ ملا۔ حاجی جمعہ خان، جسکے بارے میں امریکی حکام کا خیال ہے کہ وہ تب دنیا کا سب سے بڑا ہیروئن کا برآمد کنندہ تھا، لالچ میں جکارتہ لایا گیا اور امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) کے آپریشن میں گرفتار کر لیا گیا۔ ایڈ فولس، ایک سابق ڈی ای اے ایجنٹ جس نے اس افغان کی گرفتاری کیلئے ڈراما رچایا تھا، نے کہا کہ تفصیلی رپورٹوں کیمطابق بھیل اور دیگر اسمگلروں نے اس خلا کے نتیجے میں مارکیٹ شیئر کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ فولس نے، جوکہ ااس وقت 5 اسٹون انٹیلی جنس کی مشاورت کے ساتھ کام کر رہے ہیں، کہا کہ، ”امام بھیل نے حاجی جمعہ خان کی اسمگلنگ کی سرگرمیوں میں سہولت بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خان کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد، بھیل نے خود کو وسعت دینے کا موقع ہتھیا لیا۔“ خان طالبان کو منشیات کے پیسے پہنچانے کے الزام میں نیویارک میں مقدمے کی سماعت کا منتظر ہے۔ اس کے وکیل نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ کیس کو حل کرلیا جائے گا، اور وہ آخرکار رہا ہوجائے گا۔ بھیل کے بیٹے یعقوب بزنجو نے کہا کہ انہیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ ان کے والد نے دشتی کو گولی مار کر ہلاک کیا، یا وہ ہیروئن کا ایک بیوپاری ہے۔ ”اگر وہ منشیات کا ڈیلر ہوتا، تو کیونکر لوگ مجھے 61000 ووٹ دیتے؟“ بزنجو نے یہ بات اسلام آباد میں واقع قانون سازوں کیلئے مختص اپارٹمنٹس میں سے ایک میں کہی، جسکے خمیدہ مضافات بدبخت بلوچ ملک سے ایک دوسری دنیا کی دوری پر ہیں۔ اوباما نے ایک مختلف نقطہء نظر اپنایا۔ مئی 2009ء میں وائٹ ہاو س نے بھیل کا نام منشیات کے مشتبہ ”سرغناوں“ کی فہرست میں شامل کیا جسکے تحت ان پر امریکی پابندیاں لاگو ہونگی۔ امریکی حکومت اس طرح کے فیصلے کے حق میں موجود شواہد کو شائع نہیں کرتی۔ واشنگٹن میں محکمہ انصاف اور اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بھیل پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک دوسری دنیا وائٹ ہاو س کی اس نامزدگی کا مقصد منشیات کے سب سے بڑے مشتبہ اسمگلروں اور ان کے کاروباری ساتھیوں پر جرمانے عائد کرکے یا قید کی سزا دیکر امریکہ کے مالیاتی نظام کو انکی طرف سے استحصال سے روکنا ہے۔ ایک اخبارمیں اس اعلان کے بارے میں جاننے کے بعد بھیل نے حاصل خان بزنجو کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس ”سرغنہ“ والی حیثیت کا مطلب کیا ہے۔ بزنجو، جوکہ نارکوٹکس کنٹرول پر پاکستان کی سینیٹ کمیٹی کا سابق رکن رہا ہے، انٹرنیٹ کا سہارا لیا۔
“میں نے اس سے کہا: ’آپ امریکی ایئر لائنز پر سفر نہیں کر سکتے ہیں، آپ امریکی بینکوں کیساتھ کوئی بھی کاروبار نہیں کر سکتے ہیں۔‘ پہلے تو اسے سمجھ میں نہیں آیا۔“ پھر انہوں نے کہا کہ، بھیل نے جواب دیا: ”ٹھیک ہے، میں امریکہ کیساتھ کسی بھی قسم کاروبار نہیں کرتا۔“
اس نامزدگی نے بھیل کے کیریئر پر بہت کم اثر ڈالا۔ 2010ء میں، اس نے نیشنل پارٹی، جوکہ ایک چھوٹی سی پارٹی ہے، جس کا مضبوط گڑھ مکران میں ہے، سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اس کے رہنماو ں میں سینیٹر حاصل خان بزنجو بھی شامل ہیں، پاکستان کے اندر بلوچستان کیلئے زیادہ سے زیادہ حقوق چاہتے ہیں۔ علیحدگی پسند انہیں فوج کے پٹھوو ں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب بھیل سیاستدانوں کیساتھ بے جا مداخلت بڑھا رہا تھا تو عبدالرحمان دشتی نے سال ہا سال بلوچستان کے مرکزی دھارے سے دور گزارے۔ وہ آخرکار گوادر ضلع میں سب سے اعلیٰ سرکاری اہلکار بن گیا، جو مکران کے ساحل کے زیادہ تر حصے پر محیط ہے اور ہیروئن کی ترسیل کیلئے ایک اہم خروجی راستہ ہے۔ رشتہ دار اسے ایک سخت مگر خاندان کے اچھے دل والے بزرگ کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں جنہوں نے اپنے بھتیجوں کو اس بات کی حوصلہ افزائی کی کہ ’قلم سے محبت کرو، بندوق سے نہیں۔‘ دشتی اور بھیل کا بلوچ اشرافیہ حلقوں میں میل جول تھا۔ چھوٹی سی داڑھی، ڈھیلی قمیض اور بڑی شلوار جسے بلوچستان میں اکثر لوگ پہنتے ہیں، بھیل سینئر بلوچ حکام کیساتھ آرام سے رہ رہا تھا، جنہوں نے 2006ء میں اس کے بیٹے یعقوب کی شادی کی دعوت میں بھی شرکت کی تھی۔ دشتی مہمانوں میں شامل تھا۔ فدا دشتی نے کہا کہ، ”وہ اثر و رسوخ رکھتاہے۔ یہ بات ایک نابینا شخص پر بھی عیاں ہے۔“ ڈرائیور نے کیا دیکھا دشتیوں کی مایوسی اس یقین کیساتھ جڑی ہوئی ہے کہ انکے پاس ایک ٹھوس کیس ہے۔ پولیس کے درمیان بھیل کے قاتل ہونے کا یہ نظریہ دشتی کے ڈرائیور کی شہادت پر مبنی ہے جوکہ طویل عرصے سے اسکے ساتھ رہا ہے۔ ڈرائیور کے بیان کیمطابق، جیسا کہ دشتی کے رشتہ داروں نے بتایا، 5 مارچ کی شام کو بھیل نے دشتی کو اس کے موبائل پر فون کیا اور اسے کراچی کے ثروت مند علاقے ڈیفنس میں واقع بی – 30 خیابان تنظیم اسٹریٹ میں اپنے گھر پرطلب کیا ۔ دشتی کے اس کے گھر کے احاطے میں پہنچنے سے پہلے، دونوں کے درمیان فون پر ایک گرما گرم بحث ہوئی۔ بھیل چند منٹ بعد پہنچا۔ دشتی نے بھیل سے پوچھا کہ کیا گڑبڑ ہوئی ہے جبکہ دونوں افراد اب بھی کار پورچ میں کھڑے تھے۔ بھیل نے جواب نہیں دیا۔ اسکے بجائے اس نے پستول نکالی اور اسکی پیشانی پر گولی مار دی، دشتیوں کا ڈرائیور کے دہرائے گئے بیان کیمطابق۔ ڈرائیور اس موٹر رکشا میں بھاگ گیا کہ جس نے اسے دشتی کے رشتہ داروں تک پہنچایا۔ تفتیش کاروں کو شک ہے کہ بھیل کے لوگوں نے دشتی کی لاش سے قیمتی اشیاء چرا لئے، اسے اپنی گاڑی میں گٹھڑی کی طرح ڈال دیا گیا، پھر اسے 200 میٹر دور لیجاکر چھوڑ دیا، ایک پولیس ذریعے کے مطابق جو اس کیس سے واقف تھا۔ بھیل کے گھر کی راہداری سے ملازمین کو خون دھوتے دیکھنے پر ان کے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے۔ واقعہ سے بری طرح دہل جانے کے بعد ڈرائیور کراچی سے بلوچستان فرار ہوگیا۔ ڈپٹی انسپکٹرشاہ، جنہوں نے سب سے پہلے کیس کی تفتیش کی تھی، رائٹرز سے اس بات کی تصدیق کی کہ ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ اس نے دیکھا بھیل نے دشتی کو گولی ماردی۔ شاہ نے مزید کہا کہ پولیس ایک ہفتے کے بعد بھیل کو گرفتار کرنے کیلئے مکران گئی لیکن اس کا سراغ نہ مل سکا۔ شاہ، جو جون میں ریٹائر ہوئے تھے، نے کہا کہ ”جہاں تک امن و امان کا تعلق ہے تو بلوچستان میں صورتحال بہت پریشان کن ہے۔“ پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں بھیل کو اس قتل کا مشتبہ ملزم نامزد کیا ہے، جسے رائٹرز نے دیکھا ہے لیکن اس میں محرک کے طور پر کوئی سرکاری نظریہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ افسران نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ان کی جوڑی ایک کاروباری معاملے پر ٹوٹ سکتی ہے، جو کہ ممکنہ طور پر منشیات متعلق ہو۔ دشتیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی قیاس آرائی بے بنیاد ہے، لیکن وہ وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ کس وجہ سے ان کے خاندان کے سربراہ ہلاک کیے گئے۔ باغی بمقابلہ منشیاتی آقا بھیل، جسے بلوچستان میں پولیس کا خوف تو کم ہو سکتا ہے بہ نسبت گوریلاو ں کے، جنہوں نے منشیات کی اسمگلنگ کیخلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ بلوچ باغی الزام لگاتے ہیں اس نے اپنے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے مشتبہ علیحدگی پسندوں کو اغوا، تشدد اور قتل کرنے میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کی مدد کی ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنما اللہ نذر بلوچ، جنہوں نے مکران میں شورشی کارروائیاں تیز کی ہوئی ہیں، نے کہا کہ، ”وہ پاکستانی ایجنسیوں کا ایک اثاثہ ہے۔“
بی ایل ایف کا کہنا ہے کہ اس کے شکوک و شبہات کی بنیاد گاوں والوں کی گواہیوں پر مبنی ہیں جنکا کہنا ہے کہ بھیل کے پیروکاروں نے اس وقت جن افراد کی بابت تفتیش کیلئے ان کے گھروں کا دورہ کیا وہ بعد میں غائب کردیے گئے۔ حالیہ سالوں میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی لاشیں بلوچستان بھر میں پھینکی گئی ہیں جسے انسانی حقوق کے گروہ ”مارو اور پھینک دو“ کی پالیسی کہتے ہیں۔ نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ 2011ء کے اوائل سے لے کر مئی تک صوبے میں 300 لاشیں پائی گئی ہیں۔ فوج ان رپورٹوں سے انکار کرتی ہے کہ سیکورٹی فورسز علیحدگی پسندوں کو اغواء کرتے ہیں اور اسکا کہنا ہے کہ خود باغیوں کو منشیات کی رقم حاصل ہورہی ہے۔ میجر جنرل عبیداﷲخان، جو بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے سربراہ اور صوبے میں اہم قوت ہیں، نے کہا کہ، ”میں مجرموں کے ساتھ کوئی تعلق برقرار نہیں رکھتا۔“ خان نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر میں رائٹرز کو بتایا کہ، ”اللہ نذر ان اسمگلروں کی طرف سے فراہم کی جانیوالی رقم پر کام کر رہا ہے۔ اسے یہ ہتھیار کہاں سے مل رہے ہیں؟“ پاکستانی انٹیلی جنس افسر نے کہا کہ مجھے اس بات پر شک ہے کہ بھیل ذاتی طور پر سیکورٹی ایجنسیوں کو خبر فراہم کرتا ہو، یہاں تک کہ اگر وہ ان کے ساتھ وسیع صف بندی میں شامل ہو۔ اس نے کہا کہ، ”ہر دوسرا شخص اس معلومات کو فروخت کرنے کیلئے تیار ہے۔ میں بھیل سے کیونکر بات کرونگا؟“ یہ بات تو یقینی لگتی ہے کہ بھیل باغیوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ 2009ء میں بی ایل ایف نے بھیل کے بیٹے یعقوب کو ایک پارسل بم بھیجا، جس سے وہ اور کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ گزشتہ سال، ان کے جنگجووں نے بھیل گروہ کے ایک اہم رکن کے طور پر مشہور آدمی کو مار ڈالا۔ عبدالرحمان دشتی کے قتل کے چھ ماہ بعد، ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی کی طرف سے پرانے زمانے کی طرز پر بدلہ لینے کے دباو کیخلاف مزاحمت کر رہے ہیں: خون کا بدلہ خون۔ اس کے بجائے، وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید سپریم کورٹ ان کی درخواست پر نظر ثانی کر لے۔ فدا دشتی نے کہا کہ، ”ہم نے اپنے ذاتی موبائل نمبر انکو دیے ہیں ۔ کسی نے بھی ہمیں فون کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔“ (اضافی رپورٹنگ: واشنگٹن میں ڈیوڈ انگرام اور اسلام آباد میںکیتھرین ہوریلڈ؛ تدوین و ترتیب: بل ٹیرنٹ اور مائیکل ولیمز )